کرونا ایک بے قابو مگر قابل گرفت وائرس! ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تحریر: سید سبطین شاہ

اگرچہ انسان ابتک کرونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے کوئی ویکسین تو تیار نہیں کرسکا اور نہ اس بیماری میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے کوئی حتمی دوائی دریافت کرسکا ہے، لیکن پھر بھی انسان مصمم ہے کہ احتیاطی تدابیر سے اس بیماری کو روکے رکھے گا۔

اس وبا نے چاروں طرف سے حملہ کرکے انسانی نظام کو درھم برھم کردیا ہے، بلکہ یوں کہیں کہ اس نے انسانی نظام کافی حد تک منجمد کرکے رکھ دیا ہے۔ لوگ اپنے ہی گھروں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگ سودا سلف لینے باہر نکلتے ہیں تو سڑکیں اور گلیاں سنسان دیکھ کر اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ اجنبیت اس حد تک ہوگئی ہے کہ دہائیوں پرانے دوستوں کو بھی ایک دوسرے سے اتنا دور کردیا ہے کہ وہ ہاتھ ملانے سے بھی قاصر ہوگئے ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک تک پھیلی اس بیماری نے ایک انسان کو دوسرے ملک اپنی مرضی سے جانے کے قابل نہیں چھوڑا۔

جیسے جیسے دنیا میں کرونا وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد اور اس وائرس کے باعث مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس بیماری کے نہ تھمنے کی وجہ سے سے لوگوں میں خوف و ہراس حاوی ہوتا جارہا ہے۔

دنیا میں کرونا کے باعث اکثر عوام الناس میں دوطرح کا خوف پایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اگرباہر نکلے تو کرونا کا شکار ہوجائیں گے اور دوسرا یہ کہ اگر باہر نہ نکلے تو گھر کے اندر ہی بھوک و افلاس سے مار جائیں گے۔

کچھ ملکوں میں حکومتوں نے عوام کو اب تک آسرا دیا ہوا ہے کہ ان کی گھروں پر کفالت کی جائے گی جبکہ بہت سے ممالک ایسے ہیں، جہاں لوگوں کو تو زبردستی گھروں تک محدود تو کردیا ہے لیکن ان کے ذرائع معاش کا بندوبست نہیں کیا گیا۔

کرونا سے بچاؤ کے لیے دنیا میں مختلف تدابیر پر عمل ہورہا ہے۔ اس وائرس کی روک تھام کے لیے چین سے لے کر یورپ تک ہرملک نے اپنا اپنا طریقہ کار اپنایا ہے۔ کرونا کی روک تھام کے لیے اب تک پوری دنیا میں جو مشترکہ اور متفقہ تجاویز سامنے آئی ہیں اور جن پر عمل بھی ہورہا ہے، وہ سماجی فاصلہ اور صفائی ستھرائی سے متعلق دیگر احتیاطی تدابیر ہیں۔

سماجی فاصلے کے ساتھ ساتھ ان دنوں ایک لفظ قرنطینہ بہت زیادہ استعمال ہورہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ اطالوی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں، اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کردیناہے۔ تاریخی اعتبار سے قرنطینہ کوئی نیا لفظ نہیں۔ اس کے لغوی معنی چالیس دن ہیں، یعنی پرانے زمانے میں قرنطینہ چالیس دن کا ہوتا تھا۔ اگر کوئی بحری جہاز باہر کے ملک سے کسی شہر کی بندرگاہ میں داخل ہوتا تھا تو اس کے مسافروں اور عملے کو چالیس دن تک جہاز میں ہی رہنا پڑتا تھا تاکہ شہر کی آبادی اس جہاز کے مسافروں میں ممکنہ بیماری سے متاثر نہ ہو۔ اسے سماجی تنہائی بھی کہاجاسکتاہے۔ قرنطینہ کئی صدیوں سے رائج ہے۔ انسانی تاریخ کئی وبائیوں اور تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماریوں کی شاہد رہی ہے۔ کسی بھی وبائی بیماری میں مبتلا شخص کو دوسرے سے الگ کردیا جاتا تھا تاکہ اس کی بیماری کا اثر صحت مند لوگوں تک نہ پہنچے۔

آج دنیا میں تیزی سے پھیلتے کرونا وائرس نے ایک طرف انسانوں کو بری طرح اپنا نشانہ بنایا ہے، وہاں اس کے منفی اقتصادی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔ اس وقت دنیا ایک کڑی آزمائش سے گزر رہی ہے، دنیا کو ایک طرف انسانوں کو بچانا اور دوسری گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا ہے۔

اس بیماری کو روکنے کے لیے دنیا مختلف تجربات سے استفادہ کررہی ہے۔ کرونا وائرس کی تباہی سے ابتک باہر نکلنے والے پہلے ملک چین کا تجربہ سب کے سامنے ہے جس نے اپنے صنعتی شہر ووھان میں مکمل قرنطینہ نافذ کیا، تمام کام و کاروبار بند کردیے۔ اجتماعات پر پابندی لگادی اور لوگوں کو گھروں تک محدود کردیا۔ ووھان شہر میں چینی حکومت نے دلچسپ کام یہ کیا کہ لوگوں کی روزمرہ کی غذائی ضروریات کو ان کے گھروں تک پہنچادیاتاکہ وہ اپنی ضروریات کے لیے نقل وحرکت نہ کرسکیں۔

چین کی طرف سے اختیارکردہ یہ طریقہ کار مکمل طور پر کسی دوسرے ملک میں نافذ نہیں ہوسکا۔ نہ ہی چین جیسا نظام کسی دوسرے ملک کے پاس ہے اورنہ ہی کوئی حکومت لوگوں کی دہلیز پر مکمل راشن مہیا کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس قرنطینہ کے بعد اب چین میں سماجی اور معاشی سرگرمیاں محدود سطح پر بحال ہورہی ہیں۔ اب کسی بھی اجتماع والی جگہ پر جانے سے پہلے لوگوں کا بخار چیک کیا جاتا ہے۔ اس بحران سے جزوی طور پر نکلنے کے بعد چین میں بازاروں میں گھومنے پھرتے لوگ باقاعدہ ماسک استعمال کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

اسی تناظر میں ایران کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے جہاں بہت تیزی سے کرونا وائرس پھیلا جس کی وجہ ابتدائی طور پر بے احتیاطی تھی۔ البتہ ایران کی حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے ابتک جو اقدامات کئے ہیں، وہ قابل تعریف ہیں۔ ایران میں دس لاکھ افراد پر مشتمل رضاکاروں کی وسیع فورس تیار کی گئی جس نے ملک کی افواج اور پولیس کے ساتھ مل کر وائرس کی روک تھام کے لیے کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں کل آٹھ کروڑ سے زائد کی آبادی میں اب تک سات کروڑ سے زائد افراد کی سکریننگ کرلی گئی ہے۔ بقیہ آبادی کی سکرینگ کا عمل بھی جاری ہے تاکہ کرونا وائرس میں مبتلا افراد کی شناخت کرکے ان کا علاج کیا جائے۔ اس کے علاوہ سماجی فاصلہ بندی بھی جاری ہے تاکہ کرونا کو مزید پھیلنے سے روکا جائے۔

اگریورپ کا چین اور ایران سے موازنہ کریں تو یہاں صورتحال بہت مختلف نظر آئے گی۔ پہلے تو یورپ میں چین جیسا نظام ہی نہیں جس کے تحت عوام کو ایک ہی حکم پر احتیاطی تدابیر کا پابند بنالیا جائے۔ دوسرا یہ کہ یورپ نے کرونا سے حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر پر دیر سے عمل کرنا شروع کیا جس کا خمیازہ آج یورپ بھگت رہا ہے۔ یورپ میں اجتماعات، درسگاہیں، ریسٹورنٹس اور دیگر کام کی جگہیں اس وقت بند ہوئیں، جب وائرس یورپ کے کئی ملکوں میں پھیل چکا تھا۔

یورپ میں وائرس نے سب سے پہلے اٹلی کو نشانہ بنایا۔ اس وبا نے اس ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو شکار کیا۔ بیماری نے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ آناً فاناً اس ملک کی معاشی سرگرمیوں کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ کرونا کی وبا کے خاتمے کے بعد اٹلی کو اپنے معاشی حالات درست کرنے میں کافی وقت اور دقت درکار ہوگی۔

یورپ کے بعد امریکہ کی حالت یہ ہے کہ اس کے پاس بھی اس بیماری کو روکنے کے وسائل کم پڑ رہے ہیں۔ دنیا پر اجارہ داری کرنے والا یہ ملک آج اس بیماری کے آگے عاجز نظر آتا ہے۔ ملک کے حکمران لوگوں کو حوصلہ دینے کی بھی ہمت نہیں رکھتے بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہوسکتاہے، اس بیماری میں لاکھوں لوگ مر جائیں۔ کسی بھی ملک کے حکمران جب لوگوں کو اچھے کی امید دلانے کے بجائے، عوام کے ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر مرنے کی خبریں دیں تو ان کی بے بسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اب آتے ہیں، پاکستان کی طرف جو ہمیشہ خدا کی آسرے پر رہا ہے۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے پچھلے تین ہفتوں سے لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے لیکن بازار اور دوکانیں جزوی طور پر کھلی ہیں جہاں کئی لوگ بغیر فاصلے اور بغیر ماسک کے گھوم پھر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ماسک بھی پہن رکھے ہیں لیکن ان کا ماسک کبھی چہرے پر ناک سے ٹھوڑی تک اور کبھی صرف ٹھوڑی پر محدود نظرآتا ہے۔ وہ ماسک کو ابھی تک اس طرح سمجھ رہے ہیں جس طرح سردیوں میں کوئی مفلر استعمال کرتا ہے جو کبھی گردن کے گرد اور کبھی گلے میں آویزاں ہوتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ جیسے کسی خاتون کا دوپٹہ جو کبھی سر پر ہوتا ہے اور کبھی سر سے نیچے۔ پاکستانی پولیس کا یہ عالم ہے کہ اس نے لاک ڈاؤن کی آڑ میں لوگوں خصوصاً دیہاڑی دار عام مزدوروں کو سڑکوں پر سرعام قریب قریب جمع کرکے اور تھانوں میں ان کا اجتماع لگا کر مرغا بنایا اور ڈنڈے مارے تاکہ جن میں یہ وائرس نہیں بھی انہیں دوسرے کی قربت سے یہ بیماری لگ جائے۔

اس تحریر کے ذریعے راقم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب تک کرونا وبا کی ویکسن سامنے نہیں آتی، احتیاط ہی اس موذی مرض سے بچاؤ کا سب اہم اور واحد ذریعہ ہے۔ ساتھ ہی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اس بیماری بچنے کا حوصلہ دیں اور ان کی سماجی و مالی معاونت کریں۔ انسانوں کو چاہیے کہ اس بیماری کو دانستہ یا نادانستہ طور گلے لگانے کے بجائے اس سے بچیں۔ اس سے بچاؤ میں ہی انسان کی بقاء ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، امین

 

نوٹ: مضمون بین الاقوامی امور کے ماہر اور سینئر صحافی ہیں۔ 

اوورسیز ٹریبون کا مضمون نویس کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔)

Recommended For You

Leave a Comment